کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے

کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے
اپنے لباس سرخ کی مجھ کو بھڑک دکھا گئے

بیٹھے ادا سے ایک پل ناز سے اٹھے پھر سنبھل
پہلو چرا گئے نکل جی ہی مرا جلا گئے

رکھتے ہی در سے پا بروں لے گئے صبر اور سکوں
فتنۂ خفتہ تھا جنوں پھر وہ اسے جگا گئے

مجھ کو تو کام کچھ نہ تھا گو کہ وہ تھے پری لقا
بار خدا یہ کیا ہوا کیوں وہ مجھے ستا گئے

ہے یہ عجب طرح کی بات کیونکہ نہ ملیے اپنے ہاتھ
دل پہ ہمارے وہ تو رات چوکی سی اک بٹھا گئے

سحر کیا کہ ٹوٹکا آئی یہ وائے کیا بلا
ہائے یہ جی کدھر چلا زور ادا دکھا گئے

گرچہ نہ تھے کچھ اتنے گرم لیک دکھا ادائے شرم
دل کو لگے جو نرم نرم سخت قلق لگا گئے

آویں گے پھر بھی مصحفیؔ دیکھنے میرے گھر کبھی
اٹکا ہے اب تو ان سے جی گرچہ وہ منہ چھپا گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse