کچھ بس ہی نہ تھا ورنہ یہ الزام نہ لیتے
کچھ بس ہی نہ تھا ورنہ یہ الزام نہ لیتے
ہم تجھ سے چھپا کر بھی ترا نام نہ لیتے
نظریں نہ بچانا تھیں نظر مجھ سے ملا کر
پیغام نہ دینا تھا تو پیغام نہ لیتے
کیا عمر میں اک آہ بھی بخشی نہیں جاتی
اک سانس بھی کیا آپ کے ناکام نہ لیتے
اب مے میں نہ وہ کیف نہ اب جام میں وہ بات
اے کاش ترے ہاتھ سے ہم جام نہ لیتے
قابو ہی غم عشق پہ چلتا نہیں ورنہ
احسان غم گردش ایام نہ لیتے
ہم ہیں وہ بلا دوست کہ گلشن کا تو کیا ذکر
جنت بھی بجائے قفس و دام نہ لیتے
خاموش بھی رہتے تو شکایت ہی ٹھہرتی
دل دے کے کہاں تک کوئی الزام نہ لیتے
اللہ رے مرے دل کی نزاکت کا تقاضا
تاثیر محبت سے بھی ہم کام نہ لیتے
تیری ہی رضا اور تھی ورنہ ترے بسمل
تلوار کے سائے میں بھی آرام نہ لیتے
اک جبر ہے یہ زندگی عشق کہ فانیؔ
ہم مفت بھی یہ عیش غم انجام نہ لیتے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |