کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے

کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے
by مجاز لکھنوی

کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے
وہ زلف پریشاں بھول گئے وہ دیدۂ گریاں بھول گئے

اے شوق نظارہ کیا کہئے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوق تصور کیا کیجے ہم صورت جاناں بھول گئے

اب گل سے نظر ملتی ہی نہیں اب دل کی کلی کھلتی ہی نہیں
اے فصل بہاراں رخصت ہو ہم لطف بہاراں بھول گئے

سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے

یہ اپنی وفا کا عالم ہے اب ان کی جفا کو کیا کہئے
اک نشتر زہر آگیں رکھ کر نزدیک رگ جاں بھول گئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse