کچھ تو ہو درد کی لذت ہی سہی
کچھ تو ہو درد کی لذت ہی سہی
تیری الفت میں اذیت ہی سہی
درد کو درد نہ جب تو سمجھے
بد گمانی تری عادت ہی سہی
دل مہجور میں ارمان وصال
نہ سہی دید کی حسرت ہی سہی
بت کدہ چھوڑنے والے تو نہ تھے
خیر ملتی ہے تو جنت ہی سہی
دل کو تھا خاک میں ملنا سو ملا
دیکھنے والوں کو عبرت ہی سہی
اس ستم گار نے کر لی توبہ
اے فلک ہاں کوئی آفت ہی سہی
کوئی جلوہ نظر آئے شاید
ٹکٹکی بندھنے کی عادت ہی سہی
ہیں کسی جلوے کی آنکھیں مشتاق
کچھ کم و بیش یہ غفلت ہی سہی
عشق کی بولتی تصویر ہے شوقؔ
دیکھنے والوں کو حیرت ہی سہی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |