کچھ حساب اے ستم ایجاد تو کر
کچھ حساب اے ستم ایجاد تو کر
کس قدر ظلم کئے یاد تو کر
زندہ جا سکتے ہیں باہر کہ نہیں
دیکھ اسیروں کو اب آزاد تو کر
خاک کیوں چھان رہا ہے بتلا
تھا بھی دل پاس ترے یاد تو کر
ارے منہ ڈھانپ کے رونے والے
دم الٹ جائے گا فریاد تو کر
ہائے کیا ہوگا بہار آنے تک
قیدیٔ کنج قفس یاد تو کر
وہ تسلی ہی سہی اے صیاد
کچھ معین مری میعاد تو کر
ہے تنفر جو بتوں سے واعظ
صفت حسن خداداد تو کر
جا کبھی نجد کی جانب بھی عزیزؔ
روح مجنوں کو ذرا شاد تو کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |