کچھ حساب اے ستم ایجاد تو کر

کچھ حساب اے ستم ایجاد تو کر
by عزیز لکھنوی
317976کچھ حساب اے ستم ایجاد تو کرعزیز لکھنوی

کچھ حساب اے ستم ایجاد تو کر
کس قدر ظلم کئے یاد تو کر

زندہ جا سکتے ہیں باہر کہ نہیں
دیکھ اسیروں کو اب آزاد تو کر

خاک کیوں چھان رہا ہے بتلا
تھا بھی دل پاس ترے یاد تو کر

ارے منہ ڈھانپ کے رونے والے
دم الٹ جائے گا فریاد تو کر

ہائے کیا ہوگا بہار آنے تک
قیدیٔ کنج قفس یاد تو کر

وہ تسلی ہی سہی اے صیاد
کچھ معین مری میعاد تو کر

ہے تنفر جو بتوں سے واعظ
صفت حسن خداداد تو کر

جا کبھی نجد کی جانب بھی عزیزؔ
روح مجنوں کو ذرا شاد تو کر


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.