کچھ خوشی سے ہمیں عشق ستم ایجاد نہیں
کچھ خوشی سے ہمیں عشق ستم ایجاد نہیں
اپنے کہنے ہی میں اپنا دل ناشاد نہیں
تجھ سا بے رحم کوئی اور ستم ایجاد نہیں
دم بھی لینے کی اجازت دم بیداد نہیں
یہ نیا ظلم ہے یا رب کہ انہیں کا وعدہ
ہم انہیں یاد دلائیں وہ کہیں یاد نہیں
سیکھ جاتا ہے بشر عشق کے صدمے سہہ کر
چوٹ دل کی بھی کم از سیلئ استاد نہیں
جان ہی جائے گی یا صبر ہی آ جائے گا
یا ہمیں آج نہیں یا دل ناشاد نہیں
یہی محشر ہے یہی وعدۂ فردا کا ہے دن
آپ کیا بھول گئے اور مجھے یاد نہیں
یوں ہوا ہوں میں نظرؔ عشق بتاں میں کافر
میں تو میں میرے فرشتوں کو خدا یاد نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |