کچھ زرد زرد پتے نشاں جو خزاں کے ہیں
کچھ زرد زرد پتے نشاں جو خزاں کے ہیں
نیرنگ دل فریب یہ سب آسماں کے ہیں
اک آگ سی لگی ہے زمانے میں ہر طرف
کیا جانے زمزمے یہ کس آتش زباں کے ہیں
ہم دل جلوں کو حزن و الم سے ہے سوز و ساز
انداز زمزموں میں بھی آہ و فغاں کے ہیں
یہ بھی تو ہیں خراب اسی چشم مست کے
پرہیزگار حضرت واعظ کہاں کے ہیں
اٹھ اٹھ کے بیٹھ جاتا ہے بانگ جرس پہ دل
دیکھ اے فلک یہ حوصلے اس ناتواں کے ہیں
گزرے ہوئے زمانے کی اب یاد کیا ضرور
چرچے قفس نصیبوں میں کیوں آشیاں کے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |