کچھ مجھے کہہ کے نہ کہوائیے آپ
کچھ مجھے کہہ کے نہ کہوائیے آپ
بس زباں میری نہ کھلوایئے آپ
دوش پر اور نہ بھاری ہو جائے
میرے سر کی نہ قسم کھائیے آپ
بزم ناز اس کی ہے اے حضرت دل
پاؤں اپنے بھی نہ پھیلائیے آپ
غیر کے شکوے نہ پوچھو شب وصل
پچھلے مردے نہ اکھڑوائیے آپ
لوگ جانیں گے تمہارا عاشق
میں اگر آؤں تو شرمائیے آپ
کچھ پتا میرا بتا دیجئے گا
کچھ خبر میری اگر پائیے آپ
ساتھ میرے نہ کوئی چیخ اٹھے
مجھ کو محفل سے نہ اٹھوائیے آپ
جاتے جاتے کہیں اغیار کے گھر
کاش رستے ہی میں مل جائیے آپ
ایک دم اس کو بھلا کر سالکؔ
جی کسی طرح تو بہلائیے آپ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |