کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی
کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
دل کا اس کنج لب سے دے ہے نشاں
بات لگتی تو ہے ٹھکانے کی
وہ جو پھرتا ہے مجھ سے دور ہی دور
ہے یہ تقریب جی کے جانے کی
تیز یوں ہی نہ تھی شب آتش شوق
تھی خبر گرم اس کے آنے کی
خضر اس خط سبز پر تو موا
دھن ہے اب اپنے زہر کھانے کی
دل صد چاک باب زلف ہے لیک
باؤ سی بندھ رہی ہے شانے کی
کسو کم ظرف نے لگائی آہ
تجھ سے مے خانے کے جلانے کی
ورنہ اے شیخ شہر واجب تھی
جام داری شراب خانے کی
جو ہے سو پائمال غم ہے میرؔ
چال بے ڈول ہے زمانے کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |