کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا
کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا
ہم لوگ ہیں سودائی اوقات ہماری کیا
بجلی سے لپٹ کر ہم بھسمنت ہوئے آخر
اس کو ترے دامن کی سمجھے تھے کناری کیا
جوں شمع سر شب سے میں رونے کو بیٹھا ہوں
تا آخر شب دیکھوں دکھلائے یہ زاری کیا
گھبرائی جو پھرتی ہے اس طور صبا ہر سو
آتی ہے گلستاں کو اس گل کی سواری کیا
رونا مری آنکھوں سے جب تک کہ نہ سیکھے گا
جا بیٹھ تو رووے گا اے ابر بہاری کیا
سوتے سے تو اٹھنے دو ٹک اس کو سحر ہوتے
دیکھو گے کہ مچلے گی وہ چشم خماری کیا
نرگس کی خجل آنکھیں اتنی تو نہ تھیں گاہے
اس چشم مفتن سے بازی کوئی ہاری کیا
اوقات مجرد کی کس طرح بسر ہووے
جنگل ہے یہ بکتی ہے یاں نان نہاری کیا
اے مصحفیؔ میں اس کو جی جان سے گو چاہا
آخر کو ہوا حاصل جز ذلت و خواری کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |