کھا کے کل ہو پیچ و تاب اٹھا جو دل سے نالہ تھا
کھا کے کل ہو پیچ و تاب اٹھا جو دل سے نالہ تھا
جا کے گردوں پہ چمکتا شعلۂ جوالہ تھا
خواب میں بوسہ لیا تھا رات بلب نازکی
صبح دم دیکھا تو اس کے ہونٹھ پہ بتخالہ تھا
واہ ری افسردگی اس خاطر دلگیر کی
اشک کا قطرہ جو ٹپکا چشم سے سو ژالہ تھا
تھی خیال مہ رخاں سے شب بغل لبریز نور
آب سے خالی ولیکن مے بہ رنگ ہالہ تھا
کل برنگ غنچہ تھی کس کو مجال گفتگو
بات جب کرتا تھا منہ میں دل کا یک پرکالہ تھا
بد گمانی سے ڈرا ورنہ لیا تیرا جو نام
دیکھنا بوسہ کی خاطر میں لب دلالہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |