کھل گیا ان کی مسیحائی کا عالم شب وصل
کھل گیا ان کی مسیحائی کا عالم شب وصل
میرا دم بند ہے دیتے ہیں مجھے دم شب وصل
جیب کے پرزے اڑے پھٹ گئی محرم شب وصل
میرے ان کے رہا کچھ اور ہی عالم شب وصل
جی میں ہے کہئے موذن سے یہ ہمدم شب وصل
یوں نہ چیخا کرو اے قبلۂ عالم شب وصل
وہ نہ سوئے ہوں جدا یا نہ لڑے ہوں ہم سے
اس طرح کی ہوئی صحبت تو بہت کم شب وصل
صبح ہوتے ہی مجھے اشکوں سے منہ دھونا ہے
مجھ سے آنکھیں نہ چرا دیدۂ پر نم شب وصل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |