کھنڈر
by مختار صدیقی
330643کھنڈرمختار صدیقی

نہ یہ فنا ہے نہ یہ بقا ہے
میان بود و عدم یہ کیسا طویل وقفہ ہے
جو نوشتہ ہماری قسمت کا بن گیا ہے
کنار دریا کبھی یہ بستی تھی
لیکن اب نیستی و ہستی کے درمیان اک مقام برزخ ہے
ایسا برزخ کہ جس میں صدیوں سے کاخ و کو بام و در مسلسل
شکستگی خستگی خرابی میں خیرہ سر ہیں

حدود ہستی سے ہم نکل کر کھنڈر بنے تھے
مگر کھنڈر بن کے مٹ بھی جاتے
کہ یہ غم زندگی کے رسیا
ہماری ہستی کو اپنی یادوں سے محو کر دیتے بھول جاتے
نہ یہ کہ ہم کو تماشہ گاہ جہاں بناتے
ہمارے عبرت کدوں کو محفوظ کر کے رکھتے
نہ یہ کہ آبادیوں کی خاطر
ہماری بربادیوں کو تاریخی یادگاریں بنائے رکھتے
وہ یادگاریں
جہاں پہ یہ لوگ زندگی کے اجارہ دار آ سکیں تو آئیں
دنوں کو راہوں کی خاک اڑائیں
وہ بارگاہیں جو عرش پایہ تھیں ادب و آداب خسروی میں
وہاں یہ دراز کھسکتے جائیں
جہاں بھی جی چاہے اپنا نام اور شعر لکھیں
مچائیں غوغا رقیق بے معنی گیت گائیں
مگر نہ اوقات پنج گانہ میں
ایک بھی وقت سونی مسجد میں جھانک پائیں
کسی کی تربت پہ فاتحہ کے لیے نہ یہ اپنے ہاتھ اٹھائیں
دنوں کو یوں ہی فسردہ راہوں کی خاک اڑائیں
دیے جلے پر گھروں کو جائیں
ہماری ویرانیوں کو ویران تر بنا کر چلے ہی جائیں
یہاں پہ چھا جائے اندھی اندھیاریوں کا پھر وہ سکوت جامد
کہ یوم و سپر ہی جس کے ہم راز و ہم نفس ہیں
نہ دن کی وحشت میں کچھ کمی تھی
کہ شب کی دہشت میں کچھ کسر ہو
ہمارے دن رات ایک سے ہیں
ہمارے دن رات اسی وجود و عدم کے اک وقفۂ مسلسل میں
ہستی و نیستی کے برزخ میں پا بہ گل ہیں
ہمارے دن رات اسی درائے زمان وقفے سے متصل ہیں
مگر ہمیں کب ملے گی اس دام سے رہائی
ہمیں ملے گا عدم کی معدوم و بے نشاں گود کا سکون ابد خدایا
ہمیں ازل اور ابد کے چکر سے کب عطا ہوگی رستگاری
خدائے قیوم و حی و قائم
جناب باری


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.