کھول دی ہے زلف کس نے پھول سے رخسار پر

کھول دی ہے زلف کس نے پھول سے رخسار پر
by گویا فقیر محمد
303600کھول دی ہے زلف کس نے پھول سے رخسار پرگویا فقیر محمد

کھول دی ہے زلف کس نے پھول سے رخسار پر
چھا گئی کالی گھٹا سی آن کر گلزار پر

کیا ہی افشاں ہے جبین و ابروئے خم دار پر
ہے چراغاں آج کعبے کے در و دیوار پر

نقش پا پنج شاخہ قبر پر روشن کرو
مر گیا ہوں میں تمہاری گرمیٔ رفتار پر

چشم بد دور آج ہے یہ کون گل رو جھانکتا
چشم نرگس کا ہے عالم روزن دیوار پر

ناتواں کا بھلا کس منہ سے میں شکوہ کروں
خال ہے یاں مہر خاموش لب گفتار پر

ہم ازل سے انتظار یار میں سوئے نہیں
آفریں کہیے ہمارے دیدۂ بے دار پر

کفر اپنا عین دیں داری ہے گر سمجھے کوئی
اجتماع سبحہ یاں موقوف ہے زنار پر

ٹھوکریں کھائے گا اک دن سرکشی اتنی نہ کر
او سر بے مغز کیوں بھولا ہے اس دستار پر

زلف اس کی اپنے حق میں دیکھیے کہتی ہی کیا
ہے ہمارا فیصلہ اب تو زبان مار پر

گر چمن میں ہم سے بے برگوں کو جا دیتی نہیں
خار کی مانند بٹھلا دیں سر دیوار پر

ہے اگر عرفاں کا طالب خاکساری کر شعار
دیکھتے ہیں آئنہ اکثر لگا دیوار پر

ابرو و مژگاں سے اس کے دیکھیں دل کیوں کر بچے
اب تو نوبت آ گئی ہے تیر اور تلوار پر

انتہائے عشق میں دی جان میں نے اس لئے
لالہ باصد داغ اگتا ہے مرے کہسار پر

رابطہ گر غیر سے ہو یار کو چاہوں میں
میں نہ بلبل ہوں کہ مرتا ہوں گل بے خار پر

دل جلا ایسا ہوں میرا نام لے بیٹھا جو وہ
پڑ گئے چھالے زبان مرغ آتش خوار پر

اٹھ کے بت خانے سے مسجد کو اگر جائے گا تو
سیکڑوں ٹوٹیں گی تسبیحیں ترے زنار پر

حیف کوئے یار تک پہنچی نہ میری استخواں
مدتوں آ کر ہما بیٹھا رہا دیوار پر

سوکھ جائیں گر ہماری آبلوں کی چھاگلیں
پاس سے کانٹے نظر آئیں زبان خار پر

بعد مردن بھی ہے باقی میری نالوں کا اثر
تار مطرب کا ہے عالم ہر کفن کی تار پر

تیری آب تیغ سے ظالم جو ہو طوفان بپا
موت تڑپی مثل ماہی گنبد دوار پر

خط اسے اتنے لکھے میں نے کہ واں بھر جواب
بیٹھے رہتے ہیں کبوتر سیکڑوں دیوار پر

حشر تک ممکن نہیں اب چمکی تیغ آفتاب
باڑہ رکھواتا ہے ظالم مغربی تلوار پر

کفش پا کی گل دکھا کر ہنس کے یوں کہنے لگا
سیر کو کیوں جاؤں گلشن ہے مرے بیزار پر

دیکھیو ضد میرے مرغ نامہ بر کے واسطے
قینچیاں لگوائیں ہیں بے رحم نے دیوار پر

یار کو معلوم ہوتا ہے ہجر میں سویا نہیں
خط لکھوں گویا بیاض دیدۂ بیدار پر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.