کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق
کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق
جان دیتے ہیں آن پر عاشق
کوئی ان گالیوں سے ٹلتے ہیں
ہم ہیں تیری زبان پر عاشق
خواری ان عاشقوں کی وے جو ہوئے
تجھ سے ناقدردان پر عاشق
تازہ آفت تو ایک یہ ہے کہ ہم
ہوئے اس نوجوان پر عاشق
جان دینے کو سود جانتے ہیں
ہم ہیں اپنے زیان پر عاشق
اس قدر گرتی ہے کہے تو یہ برق
ہے مرے آشیان پر عاشق
مصحفیؔ گر تو مرد کامل ہے
دل نہ رکھ اس جہان پر عاشق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |