کہانی رات تھی آل نبی کی

کہانی رات تھی آل نبی کی
by میر تقی میر
313540کہانی رات تھی آل نبی کیمیر تقی میر

کہانی رات تھی آل نبی کی
مراد جان زہرا دل جلی کی
مصیبت دیدگی ابن علی کی
گئی سن نیند یک باری سبھی کی

پدر شاہ ولا اور اس کا نانا
محمدؐ جس کو دو عالم نے جانا
فلک نے خاک کو یک عمر چھانا
تب اس محبوب نے جلوہ گری کی

کہ اک تھا بادشا مغرب زمیں میں
علم تھا اہل ایمان و یقیں میں
امامت تھی اسے احمدؐ کے دیں میں
در اس کا سجدہ گہ تھی ہر ولی کی

تمامی جود تھا سب دست ہمت
سراپا دل ہمہ تن تھا مروت
سراسر جرأت و یک لخت غیرت
دیا سر پر نہ ان نے آشتی کی

مزاج اس کا نہایت ہی کڑا تھا
سر رہ طور پر اپنے کھڑا تھا
گذار کارواں اپنا پڑا تھا
نگہ ان نے ادھر اک سرسری کی

خیال اس کو کیا ہر اک نے مفتر
کہا سب نے اسے خود راے خود سر
گلہ سن کر کیا ان نے سخن سر
کہ رسم اپنی نہیں کبر و منی کی

نہ اس کو کبر سمجھو کبریا ہے
ہمیں یہ مرتبہ حق نے دیا ہے
تکبر ترک ہم سب نے کیا ہے
رہ و رسم اپنے ہاں ہے بیکسی کی

جو ہوں پامال تو ہم دم نہ ماریں
ہمارے جسم ہیں گویا مزاریں
ہم اپنی قدر کو کیوں کر بساریں
کہ ہے خاک اصل طینت آدمی کی

ولے وہ مالک ملک حقیقت
رہا تھا بیٹھ کر ترک خلافت
اباً جداً جنھوں نے کی خصومت
انھوں نے ابتدا پھر بے تہی کی

یہ شہ تھا کم سپہ ساتھ ان کے لشکر
یہ بیکس اور وہ مغرور و مفتر
ادھر اسباب ظاہر جمع یکسر
فقط اک اس کنے ہمت شہی کی

لگے آزار پر پہنچانے آزار
لے آئے بیچ میں بیعت کی گفتار
کھنچی پرخاش کو آخر یہ تکرار
نہ اک گمرہ نے اس کی ہمرہی کی

غم و رنج و الم جب دیکھے وافر
کہا مجھ کو نہ دیں گے چین کافر
ہوا آخر مدینہ سے مسافر
براے خواہش دل مدعی کی

کہ یاں جاتا نہ تھا اس کا ستم پیش
تدارک بھی ہوا جاتا تھا کم بیش
اگرچہ مرگ حیدر سے تھا دل ریش
حسن کے غم نے کیا کم کوتہی کی

وطن مالوف کو القصہ چھوڑا
نبیؐ کی گور سے ناچار توڑا
زمانے نے یکایک منھ کو موڑا
نہ یک دم آسماں نے ہمدمی کی

چلا راضی رضاے مالک اوپر
عمل کر کل شئی ہالک اوپر
کہا پھر رہ میں جو ہو سالک اوپر
خدا سے چشم رکھے یاوری کی

پس از طیِّ منازل کوفہ آیا
بھروسا جس کا تھا خوب آزمایا
اسے دشمن سے بھی کچھ آگے پایا
مروت دیکھ لی سب اس دنی کی

ہوا دشت بلا کو جب روانہ
پھرا حد سے زیادہ پھر زمانہ
ملا اس کو وہاں پانی نہ دانہ
فلک نے اس کی مہمانی بڑی کی

مخالف جوق جوق اودھر سے دھائے
سنان و تیغ و خنجر لے کے آئے
عزیزوں نے گلے اپنے کٹائے
نہ پوچھو شامیوں نے جو بدی کی

بھتیجے بھائی بیٹے سارے مارے
جلائے آگ دے کر خیمے سارے
موئے ناچار ہو اکثر بچارے
بہت اوقات نے اس سے کمی کی

ہوئے اکبر ہم اصغر دونوں بھائی
گیا قاسم تھی جس کی کدخدائی
مروت ظالموں سے بن نہ آئی
تسلی بھی نہ ٹک آکر کبھی کی

گلے اصغر کو بہتیرا لگایا
لیے خیمے تلک ہاتھوں میں آیا
ولے اس کو نہ جینے والا پایا
بہت دلجوئی کی اس رفتنی کی

پھر اس مظلوم کو بھی مار ڈالا
کیا سر معرکہ میں نیزہ بالا
نہ چھوڑا اک کفن کا دینے والا
رہا عابد سو اس سے کیا بھلی کی

نکالا کانپتا اس ناتواں کو
چلے لے شام لوٹے کارواں کو
کیا غارت سب اسباب زناں کو
ہر اک واحد کی خوش بے چادری کی

نکالیں عورتیں بے روئیاں کر
نہ چھوڑا پردگی کے سر پہ معجر
بٹھائیں اشتروں پر تس کے اوپر
قطار اونٹوں کی رستے پر کھڑی کی

زمام اونٹوں کی لے کر ہاتھ میں دی
مراعات اس کی بیماری کی یہ کی
چلاچل کہتے کہتے جان بھی لی
پدر مردہ کی کیا کیا دلبری کی

وہ کہتا تھا پدر منھ تیں جو پھیرا
سبھوں نے مجھ کو کھینچا اور گھیرا
نہ نکلا آہ مرغ روح میرا
کہوں کس سے اس اپنی بے پری کی

تمامی دار و دستہ کٹ کے مرنا
سر آگے باپ کا نیزے پہ دھرنا
حرم کے لوگ بے ناموس کرنا
وہی جانے یہ جن نے غم کشی کی

بس اب سو میرؔ رکھ لے ٹک زباں کو
یہیں سے چھوڑ دے اس داستاں کو
رلاوے گا کہاں تک مردماں کو
نہیں طاقت رہی مژگاں تری کی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.