کہاں وہ اب لطف باہمی ہے محبتوں میں بہت کمی ہے

کہاں وہ اب لطف باہمی ہے محبتوں میں بہت کمی ہے
by اکبر الہ آبادی

کہاں وہ اب لطف باہمی ہے محبتوں میں بہت کمی ہے
چلی ہے کیسی ہوا الٰہی کہ ہر طبیعت میں برہمی ہے

مری وفا میں ہے کیا تزلزل مری اطاعت میں کیا کمی ہے
یہ کیوں نگاہیں پھری ہیں مجھ سے مزاج میں کیوں یہ برہمی ہے

وہی ہے فضل خدا سے اب تک ترقی کار حسن و الفت
نہ وہ ہیں مشق ستم میں قاصر نہ خون دل کی یہاں کمی ہے

عجیب جلوے ہیں ہوش دشمن کہ وہم کے بھی قدم رکے ہیں
عجیب منظر ہیں حیرت افزا نظر جہاں تھی وہیں تھمی ہے

نہ کوئی تکریم باہمی ہے نہ پیار باقی ہے اب دلوں میں
یہ صرف تحریر میں ڈیر سر ہے یا جناب مکرمی ہے

کہاں کے مسلم کہاں کے ہندو بھلائی ہیں سب نے اگلی رسمیں
عقیدے سب کے ہیں تین تیرہ نہ گیارہویں ہے نہ اسٹمی ہے

نظر مری اور ہی طرف ہے ہزار رنگ زمانہ بدلے
ہزار باتیں بنائے ناصح جمی ہے دل میں جو کچھ جمی ہے

اگرچہ میں رند محترم ہوں مگر اسے شیح سے نہ پوچھو
کہ ان کے آگے تو اس زمانے میں ساری دنیا جہنمی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse