کہاں ہے تو کہاں ہے اور میں ہوں
کہاں ہے تو کہاں ہے اور میں ہوں
انا الحق کا بیاں ہے اور میں ہوں
لب جاں بخش جاناں کا ہوں کشتہ
حیات جاوداں ہے اور میں ہوں
وصال دائمی کا ہے تصور
بہار بے خزاں ہے اور میں ہوں
نہیں ہر اک کو اس میخانے میں بار
بس اک پیر مغاں ہے اور میں ہوں
مزا دیتا ہے تنہائی میں رونا
کہ اک دریا رواں ہے اور میں ہوں
اٹھا دو دن کو اور شب کو بدستور
یہ سنگ آستاں ہے اور میں ہوں
تحمل کی نہیں اب تاب زنہار
نبرد آسماں ہے اور میں ہوں
گل گلچیں کہاں فصل خزاں میں
پرانا آشیاں ہے اور میں ہوں
شب ہجراں میں ہو کون اور دم ساز
فقط اک قصہ خواں ہے اور میں ہوں
ولایت کا سفر مشکل ہے ناظمؔ
یہی ہندوستاں ہے اور میں ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |