کہا جب تم سے چارہ درد دل کا ہو نہیں سکتا

کہا جب تم سے چارہ درد دل کا ہو نہیں سکتا
by حسن بریلوی

کہا جب تم سے چارہ درد دل کا ہو نہیں سکتا
تو جھنجھلا کر کہا تیرا کلیجا ہو نہیں سکتا

وہ اپنی ضد کے پورے ہٹ کے پورے آن کے پورے
فقط اتنی کمی ہے قول پورا ہو نہیں سکتا

کہاں کی چارہ فرمائی عیادت تک نہیں کرتے
مسیحائی پہ مرتے ہیں اور اتنا ہو نہیں سکتا

سر طور ان کے جلوے نے پکارا خود نما ہو کر
کہ اپنے چاہنے والے سے پردا ہو نہیں سکتا

کہا جب ان سے میری زندگی تم ہو کہا ہنس کر
میں سمجھا اب تمہیں میرا بھروسا ہو نہیں سکتا

مرا گھر غیر کا گھر تو نہیں کیوں کر وہ کھل کھیلیں
نگاہیں اٹھ نہیں سکتیں اشارا ہو نہیں سکتا

شرفؔ اور رشکؔ کے کہنے سے کچھ تک بندیاں کر لیں
حسنؔ افکار میں ہم سے دو غزلا ہو نہیں سکتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse