کہتا ہے ہر مکیں سے مکاں بولتے رہو
کہتا ہے ہر مکیں سے مکاں بولتے رہو
اس چپ میں بھی ہے جی کا زیاں بولتے رہو
ہر یاد ہر خیال ہے لفظوں کا سلسلہ
یہ محفل نوا ہے یہاں بولتے رہو
موج صدائے دل پہ رواں ہے حصار زیست
جس وقت تک ہے منہ میں زباں بولتے رہو
اپنا لہو ہی رنگ ہے اپنی تپش ہی بو
ہو فصل گل کہ دور خزاں بولتے رہو
قدموں پہ بار ہوتے ہیں سنسان راستے
لمبا سفر ہے ہم سفراں بولتے رہو
ہے زندگی بھی ٹوٹا ہوا آئنہ تو کیا
تم بھی بطرز شیشہ گراں بولتے رہو
باقیؔ جو چپ رہوگے تو اٹھیں گی انگلیاں
ہے بولنا بھی رسم جہاں بولتے رہو
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |