کہتے ہو اب مرے مظلوم پہ بیداد نہ ہو

کہتے ہو اب مرے مظلوم پہ بیداد نہ ہو
by وحشت کلکتوی

کہتے ہو اب مرے مظلوم پہ بیداد نہ ہو
ستم ایجاد ہو پھر کیوں ستم ایجاد نہ ہو

نہیں پیمان وفا تم نے نہیں باندھا تھا
وہ فسانہ ہی غلط ہے جو تمہیں یاد نہ ہو

تم نے دل کو مرے کچھ ایسا کیا ہے ناشاد
شاد کرنا بھی جو اب چاہو تو یہ شاد نہ ہو

جو گرفتار تمہارا ہے وہی ہے آزاد
جس کو آزاد کرو تم کبھی آزاد نہ ہو

میرا مقصد کہ وہ خوش ہوں مری خاموشی سے
ان کو اندیشہ کہ یہ بھی کوئی فریاد نہ ہو

میں نہ بھولوں غم عشق کا احساں وحشتؔ
ان کو پیمان محبت جو نہیں یاد نہ ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse