کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو
شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم
اس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو
خط سے نکلے ہے بے وفائی حسن
اس قدر تو سواد ہے ہم کو
آہ کس ڈھب سے روئیے کم کم
شوق حد سے زیاد ہے ہم کو
شیخ و پیر مغاں کی خدمت میں
دل سے اک اعتقاد ہے ہم کو
سادگی دیکھ عشق میں اس کے
خواہش جان شاد ہے ہم کو
بد گمانی ہے جس سے تس سے آہ
قصد شور و فساد ہے ہم کو
دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں
اور سب سے عناد ہے ہم کو
نامرادانہ زیست کرتا تھا
میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |