کہنے سے نہ منع کر کہوں گا
کہنے سے نہ منع کر کہوں گا
تو میری نہ سن مگر کہوں گا
تم آپ ہی آئے یوں ہی سچ ہے
نالے کو نہ بے اثر کہوں گا
گر کچھ بھی سنیں گے وہ شب وصل
کیا کیا نہ میں تا سحر کہوں گا
کہتے ہیں جو چاہتے ہیں دشمن
میں اور تمہیں فتنہ گر کہوں گا
کہتے تو یہ ہو کہ تو ہے اچھا
مانو گے برا اگر کہوں گا
یوں دیکھ کے مجھ کو مسکرانا
پھر تم کو میں بے خبر کہوں گا
اک بات لکھی ہے کیا ہی میں نے
تجھ سے تو نہ نامہ بر کہوں گا
کب تم تو کہو گے مجھ سے پوچھو
میں باعث درد سر کہوں گا
تجھ سے ہی چھپاؤں گا غم اپنا
تجھ سے ہی کہوں گا گر کہوں گا
معلوم ہے مجھ کو جو کہو گے
میں تم سے بھی پیشتر کہوں گا
حیرت سے کچھ ان سے کہہ سکوں گا
بھولوں گا کا ادھر ادھر کہوں گا
کچھ درد جگر کا ہوگا باعث
کیوں تجھ سے میں چارہ گر کہوں گا
اب حال نظامؔ کچھ نہ پوچھو
غم ہوگا تمہیں بھی گر کہوں گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |