کہیے کیا اور فیصلے کی بات
کہیے کیا اور فیصلے کی بات
وصل ہے اک معاملے کی بات
اس کے کوچے میں لاکھ سر گرداں
ایک یوسف کے قافلے کی بات
گیسوئے حور اور زاہد بس
ذکر کاکل ہے سلسلے کی بات
غیر سے ہم کو رشک صل علیٰ
کہیے کچھ اپنے حوصلے کی بات
ایک عالم کو کر دیا پامال
یہ بھی ہے کوئی مشغلے کی بات
کیا بگڑنا انہیں نہیں آتا
صلح بھی ہے مجادلے کی بات
دیکھ کیا کہتے ہیں خدا سے ہم
اک ذرا ہے مقابلے کی بات
اس قدر اور قریب خاطر تو
عقل سے ہے یہ فاصلے کی بات
داور حشر سے بھی حال کہا
نہیں رکتی کہیں گلے کی بات
نہ چلے پاؤں اور نہ سر ہی چلے
بے سر و پا ہے آبلے کی بات
کوئی مضموں کبھی نہ پیش آیا
شعر میں کی ہے پھر صلے کی بات
ہم نشیں عرش ہل گیا شب ہجر
پوچھ مت جی کے زلزلے کی بات
اے قلق دل کو سوچ کر دینا
کچھ نہیں ٹھیک ولولے کی بات
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |