کہے ہے کوہ کن کر فکر میری خستہ حالی میں
کہے ہے کوہ کن کر فکر میری خستہ حالی میں
الٰہی شکر کرتا ہوں تری درگاہ عالی میں
میں وہ پژمردہ سبزہ ہوں کہ ہو کر خاک سے سرزد
یکایک آ گیا اس آسماں کی پائمالی میں
تو سچ کہہ رنگ پاں ہے یہ کہ خون عشق بازاں ہے
سخن رکھتے ہیں کتنے شخص تیرے لب کی لالی میں
برا کہنا بھی میرا خوش نہ آیا اس کو تو ورنہ
تسلی یہ دل ناشاد ہوتا ایک گالی میں
مرے استاد کو فردوس اعلیٰ میں ملے جاگا
پڑھایا کچھ نہ غیر از عشق مجھ کو خوردسالی میں
خرابی عشق سے رہتی ہے دل پر اور نہیں رہتا
نہایت عیب ہے یہ اس دیار غم کے والی میں
نگاہ چشم پر خشم بتاں پر مت نظر رکھنا
ملا ہے زہر اے دل اس شراب پرتگالی میں
شراب خون بن تڑپوں سے دل لبریز رہتا ہے
بھرے ہیں سنگ ریزے میں نے اس مینائے خالی میں
خلاف ان اور خوباں کے سدا یہ جی میں رہتا ہے
یہی تو میرؔ اک خوبی ہے معشوق خیالی میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |