کیا ستاتے ہو رہو بندہ نواز

کیا ستاتے ہو رہو بندہ نواز
by شیخ ظہور الدین حاتم
299223کیا ستاتے ہو رہو بندہ نوازشیخ ظہور الدین حاتم

کیا ستاتے ہو رہو بندہ نواز
کہ نہیں خوب یہ خو بندہ نواز

بے سبب بے وجہ و بے تقصیر
اس قدر غصہ نہ ہو بندہ نواز

ظلم ناحق نہ کرو کوئی دن
جیو اور جیونے دو بندہ نواز

مے کشو بیچ نہ بیٹھو ہرگز
خون میرا نہ پیو بندہ نواز

عطر کو مل کے نہ آؤ ہم پاس
ذبح کرتی ہے یہ بو بندہ نواز

کب تلک اپنی کہے جاؤ گے
بات میری بھی سنو بندہ نواز

واجب القتل تمہارا میں ہوں
اور کا نام نہ لو بندہ نواز

گو کہ سب مجھ کو برا کہتے ہیں
تم زباں سیں نہ کہو بندہ نواز

کس کا منہ ہے جو ترے سنمکھ ہو
ہو نہ ہو آئینہ ہو بندہ نواز

جا تری چشم میں میری ہے جا
سرو ہو ہے لب جو بندہ نواز

وصف کاکل میں سدا گویا ہے
جو زباں ہر سر مو بندہ نواز

دل سے حاتمؔ بخدا بندہ ہے
دور خدمت سے ہے گو بندہ نواز


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.