کیا کریں جا کے گلستاں میں ہم
کیا کریں جا کے گلستاں میں ہم
ہیں بہ کنج قفس فغاں میں ہم
جانتے آپ سے جدا تجھ کو
کرتے گر فرق جسم و جاں میں ہم
ہیں تجلیٔ ذات کے تیری
ایک پردہ سا درمیاں میں ہم
گل کا یہ رنگ ہے تو اب اک دن
آگ رکھ دیں گے آشیاں میں ہم
واں تغافل نے اپنا کام کیا
یاں رہے مہر کے گماں میں ہم
آسماں کو نشانہ کرتے ہیں
تیر رکھتے ہیں جب کماں میں ہم
مر کے نکلے قفس سے خوب ہوا
تنگ آئے تھے اس مکاں میں ہم
گر یہی آہ ہے تو دیکھو گے
رخنے کر دیں گے آسماں میں ہم
شاخ گل کے گلے سے لگ لگ کر
روتے ہیں موسم خزاں میں ہم
باغ تک جاتے ہاں اگر پاتے
طاقت اس جسم ناتواں میں ہم
مصحفیؔ عشق کر کے آخر کار
خوب رسوا ہوئے جہاں میں ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |