کیا کچھ نہ کیا اور ہیں کیا کچھ نہیں کرتے
کیا کچھ نہ کیا اور ہیں کیا کچھ نہیں کرتے
کچھ کرتے ہیں ایسا بخدا کچھ نہیں کرتے
اپنے مرض غم کا حکیم اور کوئی ہے
ہم اور طبیبوں کی دوا کچھ نہیں کرتے
معلوم نہیں ہم سے حجاب ان کو ہے کیسا
اوروں سے تو وہ شرم و حیا کچھ نہیں کرتے
گو کرتے ہیں ظاہر کو صفا اہل کدورت
پر دل کو نہیں کرتے صفا کچھ نہیں کرتے
وہ دلبری اب تک مری کچھ کرتے ہیں لیکن
تاثیر ترے نالے دلا کچھ نہیں کرتے
دل ہم نے دیا تھا تجھے امید وفا پر
تم ہم سے نہیں کرتے وفا کچھ نہیں کرتے
کرتے ہیں وہ اس طرح ظفرؔ دل پہ جفائیں
ظاہر میں یہ جانو کہ جفا کچھ نہیں کرتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |