کیا کھینچے ہے خود کو دور اللہ
کیا کھینچے ہے خود کو دور اللہ
اللہ رے ترا غرور اللہ
حسن ایسا کہاں ہے مہر و مہ میں
کچھ اور ہی ہے یہ نور اللہ
ہم نے تو بچشم خویش دیکھا
ہر شے میں ترا ظہور اللہ
ہم ہیں ترے بندے میرے صاحب
گو شیخ کو دیوے حور اللہ
پہلو سے مرے نکل گیا بت
کیا مجھ سے ہوا قصور اللہ
جس دم میں کروں ہوں نالہ دل سے
اٹھتا ہے کتنا شور اللہ
اے مصحفیؔ حق نہیں سمجھتا
کتنا ہوں میں بے شعور اللہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |