کیا کہوں تجھ سے مری جان میں شب کا احوال
کیا کہوں تجھ سے مری جان میں شب کا احوال
تجھ پہ روشن ہے دل وصل طلب کا احوال
ہوں میں اک عاشق بے باک و خراباتی و رند
مجھ سے مت پوچھ مرے علم و ادب کا احوال
دل کو خالی کروں رو رو کے مگر میں بے کس
کون سنتا ہے مرے رنج و تعب کا احوال
محرم راز نہیں ملتا کوئی درد ہے یہ
کیا طبیبوں سے کہوں عشق کے تب کا احوال
لطف ہے سب سے سزاوار غضب ایک ہوں میں
خوب دیکھا جو ترے لطف و غضب کا احوال
اے میاں آج تو دو بات مری بھی سن لے
کہا چاہوں ہوں میں تجھ سے بھلا کب کا احوال
زور ہے جیسے کہ نسبت نمک و ریش کے بیچ
میں ہی سمجھوں تری کیفیت لب کا احوال
نہیں دم مارنے کی مجھ کو ترے آگے مجال
ہائے سنتا ہے تو کس طرح سے سب کا احوال
کیا کوئی خوش ہو مرے شعر کو سن کے حسرتؔ
درد دل ہے یہ نہیں عیش و طرب کا احوال
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |