کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
عشق معشوق عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
گر پرستش خدا کی ثابت کی
کسو صورت میں ہو بھلا ہے عشق
دل کش ایسا کہاں ہے دشمن جاں
مدعی ہے پہ مدعا ہے عشق
ہے ہمارے بھی طور کا عاشق
جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق
کوئی خواہاں نہیں محبت کا
تو کہے جنس ناروا ہے عشق
میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہو
کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |