کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا

کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا
by مضطر خیرآبادی

کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا
کبھی دامن ترا کھینچا کبھی پردا کھینچا

نقش امید مرے شوق نے الٹا کھینچا
مجھ سے کھنچتے ہی گئے وہ انہیں جتنا کھینچا

وہ ترے دل میں ہماری بھی جگہ کر دے گا
جس نے اس آنکھ کے تل میں ترا نقشا کھینچا

خواب اس دل پہ تری آنکھ نے ڈورے ڈالے
خوب کاجل نے تری آنکھ میں ڈورا کھینچا

تان لیں دونوں بھویں ڈال کے نظریں اس نے
تیر چھوڑے تو کمانوں نے بھی چلا کھینچا

ضبط فریاد سے مضطرؔ مری سانسیں الجھیں
رسم فریاد نے اوپر کو کلیجا کھینچا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse