کیا کہیں آتش ہجراں سے گلے جاتے ہیں
کیا کہیں آتش ہجراں سے گلے جاتے ہیں
چھاتیاں سلگیں ہیں ایسی کہ جلے جاتے ہیں
گوہر گوش کسو کا نہیں جی سے جاتا
آنسو موتی سے مرے منہ پہ ڈھلے جاتے ہیں
یہی مسدود ہے کچھ راہ وفا ورنہ بہم
سب کہیں نامہ و پیغام چلے جاتے ہیں
بار حرمان و گل و داغ نہیں اپنے ساتھ
شجر باغ وفا پھولے پھلے جاتے ہیں
حیرت عشق میں تصویر سے رفتہ ہی رہے
ایسے جاتے ہیں جو ہم بھی تو بھلے جاتے ہیں
ہجر کی کوفت جو کھینچے ہیں انہیں سے پوچھو
دل دیے جاتے ہیں جی اپنے ملے جاتے ہیں
یاد قد میں ترے آنکھوں سے بہیں ہیں جوئیں
گر کسو باغ میں ہم سرو تلے جاتے ہیں
دیکھیں پیش آوے ہے کیا عشق میں اب تو جوں سیل
ہم بھی اس راہ میں سر گاڑے چلے جاتے ہیں
پر غبارئ جہاں سے نہیں سدھ میرؔ ہمیں
گرد اتنی ہے کہ مٹی میں رلے جاتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |