کیا کہیں تجھ سے ہم وفا کیا ہے

کیا کہیں تجھ سے ہم وفا کیا ہے
by قلق میرٹھی

کیا کہیں تجھ سے ہم وفا کیا ہے
سوچ کچھ دل میں پوچھتا کیا ہے

دل ہے یہ یا کہ آبلہ کیا ہے
کیوں ہے اتنا بھرا ہوا کیا ہے

کیسے کیسے جواں کیے برباد
عشق کیا شے ہے یہ بلا کیا ہے

دل کو دینا تھا دے دیا ظالم
اور ہم نے ترا لیا کیا ہے

گر رقابت تمہیں نہیں مجھ سے
پھر یہ آئینہ دیکھنا کیا ہے

پہلے رکھ لے تو اپنے دل پر ہاتھ
پھر مرے خط کو پڑھ لکھا کیا ہے

اب وہ آنکھیں نہیں ہیں پہلی سی
سچ کہو تم کو ہو گیا کیا ہے

شوق عاشق کشی بھلا ہی سہی
رحم کرنا بھی پر برا کیا ہے

کیا کہیں ہم برا کہ خو ہی نہیں
پر کہو تم ہی یہ جفا کیا ہے

جب کہ گردن پہ خوں رہا اس کی
نام مت لو کہ خوں بہا کیا ہے

میری اور آرزو کو تو پوچھے
سوچتا ہوں کہ مدعا کیا ہے

جانے کیا کیا ہوا ہے رزق خاک
گل و لالہ کو دیکھتا کیا ہے

دل عجب چیز ہے تو تم سے عزیز
رہنے بھی دو معاملہ کیا ہے

آگے آگے ہیں پارہ ہائے جیب
مجھ کو درکار رہنما کیا ہے

کم نگاہی بھی شرط حسن ہے پر
دیکھ تو ہم میں اب رہا کیا ہے

قتل ہوتے رہے ہیں ہم سے پوچھ
لے کے شمشیر سوچتا کیا ہے

پی گئی خوں زمیں ہزاروں کی
مفت پھر شوخئ حنا کیا ہے

دونوں عالم کو کیوں کیا پامال
نقش پا پر یہ نقش پا کیا ہے

اے قلقؔ کیوں قلندری چھوڑی
یہ عبا کیا ہے یہ قبا کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse