کیا کہیں ہم تھے کہ یا دیدۂ تر بیٹھ گئے
کیا کہیں ہم تھے کہ یا دیدۂ تر بیٹھ گئے
قلزم اشک میں جوں لخت جگر بیٹھ گئے
ناتواں ہم یوں تری بزم سے نکلے کیونکر
کسے معلوم ہے ہم آ کے کدھر بیٹھ گئے
آپ کو خون کے آنسو ہی رلانا ہوگا
حال دل کہنے کو ہم اپنا اگر بیٹھ گئے
کس کو اک دم کا بھروسہ ہے کہ مانند حباب
بحر ہستی میں ادھر آئے ادھر بیٹھ گئے
دور سمجھا ہے رقیبوں کو یہاں سے عارفؔ
یار کے پاس جو بے خوف و خطر بیٹھ گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |