کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے

کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
by اکبر الہ آبادی

کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
موت آتی ہے شب ہجر نہ نیند آتی ہے

وہ بھی چپ بیٹھے ہیں اغیار بھی چپ میں بھی خموش
ایسی صحبت سے طبیعت مری گھبراتی ہے

کیوں نہ ہو اپنی لگاوٹ کی نظر پر نازاں
جانتے ہو کہ دلوں کو یہ لگا لاتی ہے

بزم عشرت کہیں ہوتی ہے تو رو دیتا ہوں
کوئی گزری ہوئی صحبت مجھے یاد آتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse