کیا ہے تو نے تو جان جہاں جہاں تسخیر
کیا ہے تو نے تو جان جہاں جہاں تسخیر
ہوا ہے حسن کا شہرہ ترا تو عالم گیر
نہا کے بال جو سرکائے گورے چہرہ سے
تو جیسے چاند نکل آیا کالی بدری چیر
نہ خوب رو تجھے کہہ سکتے ہیں نہ مہر نہ ماہ
عجب گڑھی ید قدرت نے کچھ تری تصویر
جہاں پڑا ترا سایہ اگا وہاں گل زار
قدم دھرا ہے تو جس جا بنا ہے مشک و عبیر
شکار کر لیا سارا جہاں شکار انداز
ہوا ہے پار نگہ سے تری نگاہ کا تیر
ہوے نہ ذبح نہ فتراک تک یہ جا پہنچے
ادھر ادھر ہیں تڑپتے یہ نیم جاں نخچیر
ہے اظفریؔ وہ سیہ بخت سانپ کاٹا بھی
پڑی ہے زلف کی آ جس کے پاؤں میں زنجیر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |