کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر

کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر
by شاد لکھنوی

کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر
اللہ اللہ اے برہمن کر

ہوگا برباد مثل کاغذ باد
سر کو کھینچا فلک پہ گر تن کر

خنجر و تیغ کر گلے پہ رواں
پھیر کر آنکھ کج نہ چتون کر

اے تری شان ہو گیا انساں
ایک مشت غبار بن ٹھن کر

پاک دامن ہے مریم ثانی
چشم تر طفل اشک کو جن کر

دل کے ڈسنے میں ہے یہ کالا ناگ
زلف پیچاں سے بل نہ ناگن کر

تو اگر ہڈیوں کا مالا ہے
اسم اعظم کی درد سمرن کر

ہے یہ چھلنی مزار شادؔ غریب
دھوپ آتی ہے لاش پر چھن کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse