کیف مستی میں عجب جلوۂ یکتائی تھا

کیف مستی میں عجب جلوۂ یکتائی تھا
by ساحر دہلوی

کیف مستی میں عجب جلوۂ یکتائی تھا
تو ہی تو تھا نہ تماشا نہ تماشائی تھا

حسن بے واسطۂ ذوق خود آرائی تھا
عشق بے واہمۂ لذت رسوائی تھا

تیری ہستی میں نہ کثرت تھی نہ وحدت پیدا
ہمہ و بے ہمہ و با ہمہ یکجائی تھا

پردہ در کوئی نہ تھا اور نہ در پردہ کوئی
غیرت عشق نہ تھی عالم تنہائی تھا

لا فنا تیری صفت تھی تیری ہستی کا ثبوت
بے نشاں تیرا نشاں صورت بینائی تھا

حال تھا حال نہ ماضی تھا نہ تھا مستقبل
از ازل تا بہ ابد جلوہ بہ رعنائی تھا

ذات قائم تھی بذات اور صفت تھی معدوم
کن نہ تھا معرکۂ انجمن آرائی تھا

بزم میں تو نے جو الٹا رخ روشن سے نقاب
ایک عالم تیرے جلوہ کا تماشائی تھا

فتنہ زا حسن ہوا عشق ہوا شور فگن
رم ہوا شوق فزا شوق تمنائی تھا

کوئی ثابت کوئی سیارہ کوئی متحیر
کوئی عاشق کوئی مجنوں کوئی سودائی تھا

حرف اور صوت میں آتا ہے کسی کا ہو کلام
ساحرؔ آغاز میں کن غایت پیدائی تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse