کیوں خفا تو ہے کیا کہا میں نے

کیوں خفا تو ہے کیا کہا میں نے
by عبدالرحمان احسان دہلوی

کیوں خفا تو ہے کیا کہا میں نے
مر کہا تو نے مرحبا میں نے

کیوں صراحی مے کو دے پٹکا
تو نے توڑا یا بے وفا میں نے

ناتوانی میں یہ توانائی
دل کو تجھ سے اٹھا دیا میں نے

دے کے یہ تجھ کو یہ لیا کہ دیا
گوہر بے بہا لیا میں نے

کیوں خم مے کو محتسب توڑا
کیا کیا میں نے کیا کیا میں نے

کیوں نہ رک رک کے آئے دم میرا
تجھ کو دیکھا رکا رکا میں نے

گل ہزاروں میں شمع عیش احساںؔ
جیسے اس گل کو دل دیا میں نے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse