کیوں چپ ہیں وہ بے بات سمجھ میں نہیں آتا
کیوں چپ ہیں وہ بے بات سمجھ میں نہیں آتا
یہ رنگ ملاقات سمجھ میں نہیں آتا
کیا داد سخن ہم تمہیں دیں حضرت ناصح
ہے سو کی یہ اک بات سمجھ میں نہیں آتا
شیخ اور بھلائی سے کرے تذکرہ تیرا
اے پیر خرابات سمجھ میں نہیں آتا
سایہ بھی شب ہجر کی ظلمت میں چھپا ہے
اب کس سے کریں بات سمجھ میں نہیں آتا
مشتاق ستم آپ ہیں مشتاق اجل ہم
پھر کیوں یہ رکا ہات سمجھ میں نہیں آتا
روکا انہیں جانے سے سر شام تو بولے
کیوں کرتے ہو تم رات سمجھ میں نہیں آتا
دل ایک ہے اور اس کے طلب گار ہزاروں
دیں کس کو یہ سوغات سمجھ میں نہیں آتا
کیوں کر کہوں احسنؔ کہ عدو دوست ہے میرا
ہو نیک وہ بد ذات سمجھ میں نہیں آتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |