کیوں کرتے ہو اعتبار میرا
کیوں کرتے ہو اعتبار میرا
معلوم ہے تم کو پیار میرا
یہ خیر ہے آج کچھ تو کہیے
کیوں ذکر ہے بار بار میرا
اک بات میں فیصلہ ہے تم سے
رنجیدہ ہے دل ہزار میرا
تیرا نہیں اعتبار مجھ کو
تو بھی نہ کر اعتبار میرا
شاید کہ نہ ہو تم اپنے بس کے
دل پر تو ہے اختیار میرا
مجھ کو نہ ہو رشک غیر ممکن
تو اور ہو دوست دار میرا
کچھ سمجھے ہوئے ہیں اپنے دل میں
سنتے نہیں حال زار میرا
وہ ہائے بگڑ کے اس کا جانا
رونا وہیں زار زار میرا
کل تک تو نظامؔ یہ نہ تھا حال
دل آج ہے بے قرار میرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |