کیوں کر نہ خوش ہو سر مرا لٹکا کے دار میں

کیوں کر نہ خوش ہو سر مرا لٹکا کے دار میں
by گویا فقیر محمد
303595کیوں کر نہ خوش ہو سر مرا لٹکا کے دار میںگویا فقیر محمد

کیوں کر نہ خوش ہو سر مرا لٹکا کے دار میں
کیا پھل لگا ہے نخل تمنائے یار میں

چاہا بہت ولی نہ موا ہجر یار میں
محبوب کیا اجل بھی نہیں اختیار میں

موباف سرخ کیوں نہ ہو گیسوئے یار میں
شبخون یعنی لاتے ہیں شبہائے تار میں

موباف ہے کنارے کا زلف نگار میں
یا برف کوندتی ہے یہ ابر بہار میں

راحت کے ساتھ رنج بھی ہے روزگار میں
ہنسنے پہ گل کے روتی ہے شبنم بہار میں

پنہاں ہوا ہے خال خط مشک بار میں
ملتا نہیں ہے ڈھونڈھے سے نافہ تتار میں

مر جاؤں گا خیال رخ و زلف یار میں
آ جائے گی اجل اسی لیل و نہار میں

لپٹی ہے چوٹی یار کی پھولوں کے ہار میں
سنبل نے گل کھلائے ہیں فصل بہار میں

آؤں نہ آپ میں جو وہ آئے کنار میں
رکھوں میں اپنی طرح اسے انتظار میں

سبزہ تک اپنی قبر کا خوابیدہ ہو گیا
پر ہم کو نیند آئی نہ اک دم مزار میں

او برق طور تا بہ کجا لن ترانیاں
پتھرا گئیں ہیں آنکھیں مرے انتظار میں

جائیں کب آشنا تری دریا کی سیر کو
اشک رواں سے رکھتی ہیں دریا کنار میں

یہ کس نے آ کے قبر پہ بے چین کر دیا
کیا سو رہی تھی چین سے کنج مزار میں

آیا ہے خواب بھی شب وعدہ اگر ہمیں
آنکھیں کھلی رہی ہیں ترے انتظار میں

خاک چمن سے کیا ہے مرا کالبد بنا
داغوں سے گل جو کھلتے ہیں فصل بہار میں

بعد از فنا بھی حسن پرستی سے کام ہے
آئینہ ساں صفائی ہے سنگ مزار میں

آنسو بہاؤں آنکھوں سے اس کو لگا کے میں
موتی پروؤں یار کی پھولوں کے ہار میں

کیوں منہ سے بولتا نہیں نکلا ہے اب تو خط
دروازہ بند باغ کا مت کر بہار میں

روتے ہیں یاد گوہر دندان میں ان دن
موتی بھرے ہیں مثل صدف یاں کنار میں

کہیے وہ لعل لب خط مشکیں میں دیکھ کر
پیدا ہوا ہے لعل بدخشاں تتار میں

فرہاد کی یہ آنکھیں ہیں شیریں کو ڈھونڈھتے
اب دل غزال پھرتی نہیں کوہسار میں

موذی ہے چرخ اس سے نہیں کج روی بعید
سچ یوں ہے راستی نہیں رفتار میں

تجھ بن نہیں یہ جلوہ نما شب کو ماہتاب
چشم فلک سفید ہوئے انتظار میں

تو سن کے ساتھ دوڑوں جو میں منع کروں
ظالم عنان صبر نہیں اختیار میں

پھولوں کا ہار بن گیا ہے موتیوں کا ہار
ایسا خوشی سے پھول گیا دست یار میں

نفرت یہ ان گلوں کو ہے مرنے کے بعد بھی
ہوتا نہیں ہے گل مرے شمع مزار میں

گیسو کو اس کی کچھ نہیں پروائے نقد دل
یہ مال وہ ہے جو ہے سب چشم یار میں

دیتی ہے ناتوانی اگر رخصت چمن
پھنستا ہوں دام موج نسیم بہار میں

کرتا ہے کوئی ترک دلا نیزہ بازیاں
دنبالہ سرمے کا یہ نہیں چشم یار میں

پیسے گا استخواں اثر اضطراب دل
عالم اب آسیا کا ہے سنگ مزار میں

باغ جہاں میں عیش کے فرصت بہت ہے کم
لبریز جام عمر ہے گل کا بہار میں

کس ماہ وش سے رات ہم آغوش ہم ہوئے
عالم ہلال کا ہے ہمارے کنار میں

مثل حنا ہے غیر کی ہاتھوں مرے بہار
سرسبز اگرچہ ہوں چمن روزگار میں

آتا ہے جب وہ تن میں مرے جان آتی ہے
جانے میں مثل عمر نہیں اختیار میں

اللہ رے صفائی رخ یار دیکھنا
حیران ہے آئینہ کف آئینہ دار میں

اپنے گلے کے ہار کے گر وہ چڑھائے پھول
پھولا نہ پھر سماؤں میں کنج مزار میں

گر پیشوائے خلق ہے زاہد تو کیا ہوا
تسبیح کا امام نہیں ہے شمار میں

مضمون تری کمر کا ہے کیا آج بندہ گیا
عنقا پھنسا ہے ان کی دام شکار میں

جھڑتی ہیں منہ سے پھول جو کرتا ہے بات تو
تجھ سا نہیں ہے گل چمن روزگار میں

قاصد تو صاف کہہ دی مکدر ہے مجھ سے کیا
لکھا جو نامہ یار نے خط غبار میں

تلوار لے جو ہاتھ میں بن جائے شاخ گل
سوسن کا پھول ہوئے سپر دست یار میں

یہ کس نے آ کے قبر کو روندا ہے پاؤں سے
آتی ہے بوئے گل مری خاک مزار میں

بعد از فنا بھی خواہش دیدار یار ہے
روزن کوئی ضرور ہے میرے مزار میں

جب رات ہوتی ہے تو ستارے نکلتے ہیں
افشاں ضرور چاہئے تھے زلف یار میں

کس کو یہ ہوش ہے جو کرے چاک جیب کو
باہر ہوں اپنے جامے سے فصل بہار میں

فرمائش اپنی دیکھنے والوں پہ کرتی ہیں
آنکھوں کے ڈورے ہوں مرے پھولوں کے ہار میں

پاؤں سے اپنے آئے گی صحرا میں بھی بہار
چھالے ہمارے پھول پروئیں گے خار میں

واجب ہے آب تیغ سے کر لیجئے وضو
سجدہ جو کیجئے خم ابروئے یار میں

دریا میں اس کی تیر مژہ کا پڑے جو عکس
سوراخ ہو ہر اک گہر آب دار میں

آیا کبھی نہ یار نہ آیا میں آپ میں
اپنے اور اس کے شکوے کیے انتظار میں

ناسور پڑ گئی ترے دانتوں کے رشک سے
روزن نہیں ہیں یہ گہر آبدار میں

کھا کھا کے گل موا ہوں جو میں میرے خاک کے
طاؤس بنتے ہیں چمن روزگار میں

آتے ہی فصل گل مجھے جوش جنوں ہوا
زنجیر در سے باغ کے باندھو بہار میں

کرتے ہی صاف آئینے کو خاک دیکھ لے
جوہر نہ پوچھ جو ہیں ہر اک خاکسار میں

رکھتے نہیں غرور سے وہ پاؤں عرش پر
چلتے ہیں سر کے بل جو رہ کوئے یار میں

بتلاؤں کیا وہ کیسی ہے آرام کی جگہ
سو جائیں پاؤں جاؤں اگر کوئے یار میں

اپنے سوا نہیں ہے کوئی اپنا آشنا
دریا کی طرح آپ ہیں اپنے کنار میں

گویاؔ کبھی ہے یاس کبھی انتظار یار
کیا کیا ہیں رنج زندگئ مستعار میں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.