کیوں کہہ رہے ہو نزع میں ہم سے خفا نہ ہو
کیوں کہہ رہے ہو نزع میں ہم سے خفا نہ ہو
اس کو فریب دو جو تمہیں جانتا نہ ہو
یہ چاہتے ہیں ہم کہ کوئی دوسرا نہ ہو
خلوت ہو ہم ہوں تم ہو تمہاری حیا نہ ہو
اے دل خدا کے واسطے ہم سے خفا نہ ہو
حسن آشنا تو تھا ہی ستم آشنا نہ ہو
وہ ہو جو تیری شان کے شایاں ہو اے کریم
میں کیا کہوں زباں سے کہ اب کیا ہو کیا نہ ہو
یہ اور بات ہے کہ نیا آسمان ہے
جو ہو چکے بہت ہیں ستم اب نیا نہ ہو
گزرے مزے سے حشر کا دن انتظار میں
میں بھی یہ چاہتا ہوں کہ وعدہ وفا نہ ہو
میں سخت جان دور اجل تیغ نازنیں
یہ کام آپ سے کہیں تنہا ہوا نہ ہو
اتنا ہی تو کہا تھا کہ جاگے ہو رات کے
یہ روٹھنے کی بات نہیں ہے خفا نہ ہو
ناوک فگن ٹھہر کہ ذرا دل سنبھال لوں
ڈرتا ہوں میں کہ پھر کہیں ناوک خطا نہ ہو
اب آئنوں کی خیر نہیں ہے دلوں کی طرح
وہ چاہتے ہیں ہم سا کوئی دوسرا نہ ہو
اپنی زباں سے ہم اسے بے درد کیوں کہیں
یہ اور بات ہے کہ وہ درد آشنا نہ ہو
لطف کلام یہ کہ حسیں سن کے ہوں فدا
صفدرؔ وہ شعر کیا ہے کہ جس میں مزہ نہ ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |