کیوں کہہ کے دل کا حال اسے بد گماں کروں

کیوں کہہ کے دل کا حال اسے بد گماں کروں
by بیخود دہلوی

کیوں کہہ کے دل کا حال اسے بد گماں کروں
یہ راز وہ نہیں ہے جسے میں بیاں کروں

مجھ کو یہ ضد کہ وصل کا اقرار تم سے لوں
تم کو یہ ہٹ کہ میں نہ کبھی تجھ سے ہاں کروں

یہ کہہ رہی ہے مجھ سے کسی کی نگاہ شرم
فرصت اگر حیا سے ملے شوخیاں کروں

تو مجھ کو آزما کے وفاداریوں میں دیکھ
میں بے وفائیوں میں ترا امتحاں کروں

اکتا گیا ہے شرع کی پابندیوں سے جی
دل چاہتا ہے بیعت پیر مغاں کروں

بیخودؔ رفیق ہے نہ کوئی ہم طریق ہے
دل پر جو کچھ گزرتی ہے کس سے بیاں کروں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse