کی میرے تڑپنے کی نہ تدبیر کسی نے
کی میرے تڑپنے کی نہ تدبیر کسی نے
اس کی نہ دکھائی مجھے تصویر کسی نے
کھانوں سے منوں غم کے بھی سیری نہیں ہوتی
کیا مجھ کو کھلا دی کہیں اکسیر کسی نے
یہ کوہ کن و قیس یوں ہی مر گئے آخر
دیکھی نہ کبھی آہ کی تاثیر کسی نے
شاد اس نگہ یار کے دھوکے میں ہوا ہوں
مارا ہے میرے سینے میں جب تیر کسی نے
یہ ریختہ وہ ہے کہ کوئی ڈھا نہیں سکتا
عارفؔ کہیں دیکھی ہے یہ تعمیر کسی نے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |