گاندھی
by اقبال سہیل
318422گاندھیاقبال سہیل

وہ حدیث روح پیام جاں جسے ہم نے سن کے بھلا دیا
وہ حریم غیب کا ارمغاں جسے پا کے ہم نے گنوا دیا

وہ ملک و ملت جاں بہ لب جسے اس نے آب بقا دیا
اسی نا سپاس نے ہائے اب اسے جام مرگ پلا دیا

ہمیں جس نے فتح دلائی تھی اسے خاک و خوں میں ملا دیا
ہمیں جس نے راہ دکھائی تھی اسے راستے سے ہٹا دیا

اسے اتباع مسیح نے وہ عجیب دست شفا دیا
جو گرے تھے ان کو اٹھا دیا جو مرے تھے ان کو جلا دیا

جو اٹھا تھا شعلۂ شور و شر اسے اپنے خوں سے بجھا دیا
جو پڑا تھا پردہ نگاہوں میں اسے آپ اٹھ کے اٹھا دیا

وہ خمیدہ قد خم ماہ نو وہ نظر فریب خنک سی ضو
وہ نگاہ برق عمل کی رو کہ دلوں کو جس نے ہلا دیا

وہ فروغ بخش ہر انجمن کہ زمانہ بھر میں تھا ضو فگن
وہ چراغ بزم گہ وطن کسی تیرہ دل نے بجھا دیا

وہ کتاب صلح کا سر ورق کہ مٹائی کشمکش فرق
وہ قتیل خنجر صبر و حق کہ وطن پہ خود کو مٹا دیا

وہ بودھ اور کرشن کا جا نشیں ہمہ تن عمل ہمہ تن یقیں
وہ تبسم سحر آفریں کہ چمن لبوں سے کھلا دیا

وہ برنگ آئینہ صاف دل وہ فروغ فطرت آب و گل
کہ جہاد نفس نے مستقل اسے اور حسن جلا دیا

وہ جلال شیوۂ سادگی وہ جمال صورت زندگی
وہ زلال چشمۂ آگہی کہ زمانہ بھر کو جگا دیا

وہ شرارہ برق حیات کا وہ ستارا راہ نجات کا
وہ منارہ عزم و ثبات کا جسے فتنہ ساز نے ڈھا دیا

اثر اس کا اب ہے وسیع تر کہ ہر ایک دل میں ہے اس کا گھر
یہ سمجھ کے خوش نہ ہوں فتنہ گر کہ اسے پیام فنا دیا

تری شان کون گھٹا سکے اسے خود خدا نے بڑھا دیا
کہ تجھے بقائے دوام دی تجھے منصب شہدا دیا

تری خامشی وہ زبان تھی کہ دلوں کو جوش نوا دیا
تن فاقہ کش میں وہ جان تھی کہ حصار کبر ہلا دیا

وطن عزیز کو شان دی اسے قید غم سے چھڑا دیا
رہ اتحاد میں جان دی جو کہا وہ کر کے دکھا دیا

جنہیں زیر کر نہ سکا ستم ہوئے صید سلسلۂ کرم
تری نیکیوں نے تری قسم سر خود سری کو جھکا دیا

یہ عروس کشور ہند تھی ہمہ بیکسی ہمہ بد دلی
اسے تو نے غازۂ خرمی ترے خوں نے رنگ حنا دیا

تجھے مندروں نے صدائیں دیں کہ ترے کرم سے اماں ملی
تجھے مسجدوں نے دعائیں دیں کہ تباہیوں سے بچا دیا

یہ کمال پیروی علی یہ فراخ حوصلگی تری
کہ خود اپنے دشمن جاں کو بھی وہی ارمغان دعا دیا

تجھے بیکسی نے سپاہ دی تجھے مشکلات نے راہ دی
تجھے بجلیوں نے پناہ دی تجھے تلخیوں نے مزا دیا

یہی دھرم ہے یہی اصل دیں کہ ہو قول سچ تو عمل حسیں
حق و اہل حق پہ رہے یقیں یہ پیام سب کو سنا دیا

ہمہ روشنی تری ذات تھی ہمہ سوز تیری حیات تھی
تری روح شمع تھی گل ہوئی ترے تن کو پھول بنا دیا

ترا فیض دہر میں عام ہو یہ غبار اٹھ کے غمام ہو
تری خاک تیرا پیام ہو یہ سمجھ کے اس کو بہا دیا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.