گردش چشم ہے پیمانے میں
گردش چشم ہے پیمانے میں
تم گئے ہو کبھی میخانے میں
ایک جلوہ سا نظر آتا ہے
کوئی تو ہے مرے غم خانے میں
یوں ہے سینے میں دل پر حسرت
قبر جیسے کسی ویرانے میں
ساز نیرنگ ہے میری زنجیر
نئی آواز ہے ہر دانے میں
دیکھ اے دل نہ مجھے چھوڑ کے جا
فرق آ جائے گا یارانے میں
جل کے عاشق ہوئے معشوق صفت
شمع کا سوز ہے پروانے میں
جان اس بت میں لگی رہتی ہے
اپنے کو پاتے ہیں بیگانے میں
بے خودی نے نہ کہیں کا رکھا
ہم ہیں بستی میں نہ ویرانے میں
سنگ در تک ترے جب سر پہنچا
لاکھ سجدے کئے شکرانے میں
نہیں معلوم گیا کس جانب
دل لگا ہے ترے دیوانے میں
قصۂ حضرت یوسف نہ سنو
طرفہ عبرت ہے اس افسانے میں
حال پرسی نہیں کرتا کوئی
بیکسی ہے مرے غم خانے میں
اس طرح دل میں ہے آہوں کا دھواں
جیسے خاک اڑتی ہے ویرانے میں
برکت کس کے قدم کی ہے رشیدؔ
کہ اذاں ہوتی ہے بت خانے میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |