گردن شیشہ جھکا دے مرے پیمانے پر
گردن شیشہ جھکا دے مرے پیمانے پر
سن برستا رہے ساقی ترے میخانے پر
گرمیٔ حسن بڑھی سرد ہوا عاشق زار
شمع کے پھول سے بجلی گری پروانے پر
گرمیاں ہیں تو مرا دیدۂ تر حاضر ہے
چھوٹے مژگاں کا ہزارا ترے خس خانے پر
غش ہوا گردن ساقی پہ کبھی آنکھ پہ لوٹ
کبھی شیشہ پہ گرا میں کبھی پیمانے پر
وہ بھی اے قدرؔ تھا اک نقش قدم حیدر کا
رکھتے تھے مہر نبوت جو نبیؐ شانے پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |