گردوں نے کس بلا کو یہ کر دیا اشارہ

گردوں نے کس بلا کو یہ کر دیا اشارہ
by میر تقی میر
313525گردوں نے کس بلا کو یہ کر دیا اشارہمیر تقی میر

گردوں نے کس بلا کو یہ کر دیا اشارہ
ابن علی کو جن نے اس گھاٹ لا اتارا
دریا کے خاک سر پر جو کر رہا کنارہ
دنیا سے خشک لب یہ سید گیا ہمارا

کر بند سب کا پانی پھر آگ آ لگائی
چھاتی مسافروں کی سو رنگ سے جلائی
گھٹنے کی بات یاں کی کس مرتبہ بڑھائی
کیا کیا ہوئی چڑھائی کیا کیا دیا اتارا

سید کے آنکھ مندتے کچھ اور تھا زمانہ
عابد رہا سو اس کو موجود ہی نہ جانا
ناموس احمدی کی عزت نہ کی نہ مانا
گھر بار لوٹ سارا ان کو کیا اساریٰ

وارث یہی رہا تھا بے چارہ دل شکستہ
سو درمیاں کھڑا تھا ناچار دست بستہ
کیا وارثی کرے وہ دل چاک سینہ خستہ
یاری گر و نہ یاور جس کا نہ یار و یارا

تھے لوگ سب حرم کے جوں بید سربرہنہ
ان میں سکینہ جیسے خورشید سر برہنہ
تھی شہر بانو یکسر نومید سربرہنہ
نوحے سے جس کے جنگل تھا زلزلے میں سارا

خاک سیاہ سے تھا قوم و قبیلہ یکساں
منھ نوچتی تھی زینب کلثوم موپریشاں
قاسم کی ماں بچاری اس واقعے سے حیراں
مرنا تھا زندگی پر ان سب کے تیں گوارا

کہتی تھی خوب دیکھی بیٹے کی کدخدائی
کیا دھوم ہورہی تھی جس دم برات آئی
کون آوے ہو براتی سب مر گئے تھے بھائی
یا دولھا آن اترا یا مرنے کو سدھارا

شادی رچی ہے ایسی کاہے کو کوئی آگے
دولھا کے دست و پا میں لوہو کی مہندی لاگے
بزم عروسی میں سے ہم روتے کڑھتے بھاگے
نوشہ کا گھوڑا کہیے یا اس کے تیں کنوارا

اس جمع کا تھا ازبس احوال اضطراری
تھی فرط درد و غم سے ہر اک کو بے قراری
منھ آسماں کی جانب کلثوم کر پکاری
کاے چرخ ہم سبھوں کا کیا جل گیا ستارہ

شہ آفتاب جو تھا اس پر زوال آیا
سر پر رہا نہ اس کے ختم رسلؐ کا سایہ
اکبر نے چاند سا منھ وو خاک میں چھپایا
اصغر تھا طفل ہالہ بے وقت اس کو مارا

ہے عابدیں جو باقی بیمار و ناتواں ہے
درپیش پھر سفر ہے ساتھ اس کے کارواں ہے
دلجوئی سکینہ کیا ہوسکے عیاں ہے
شور اک اٹھا جو ان نے بابا کے تیں پکارا

دادا کی اور منھ کر رویا یہ کہہ کے پوتا
کاے جد پاک سایہ تیرا جو سر پہ ہوتا
تو جان اپنی اکبر یوں رائیگاں نہ کھوتا
ہم پر ستم نہ ہوتا اس طرح آشکارا

کاہے کو یہ قیامت سر پر ہمارے ہوتی
پھوپھی نہ سر کو اپنے یوں پیٹ پیٹ روتی
روتی بلکتی پھرتی اس طور سے نہ پوتی
غلطاں نہ خاک و خوں میں ہوتا حسین پیارا

شش ماہہ طفل اصغر ایسا ستم نہ سہتا
یہ سہل باتیں ہم کو ہر اک نہ منھ پہ کہتا
جوش و خروش سے یوں دریاے خوں نہ بہتا
لوہو سے اقربا کے ہوتی نہ خاک گارا

اب یانصیب میں نے سر پر بلا اٹھائی
مشکل گذار اس میں گو راہ پیش آئی
کریے بیاں سو کس سے بابا رہا نہ بھائی
یا ہے نظر خدا پر یا آسرا تمھارا

اس طرز گفتگو کر چپکا ہوا وہ مغموم
ناگفتہ میرؔ بہتر آگے جو کچھ ہے معلوم
روتا چلا جو واں سے خاطرشکستہ مظلوم
احوال دیکھ اس کا مشکل ہوا گذارا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.